بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایران جوہری طاقت سے پہلے
محمد سرور
ترجمہ : حامد محمود
تہران اور
طالبان یا شیعہ ، سنی
زیر نظر
مضمون طالبان اقتدار کے شروع دنوں میں عربی ماہنامہ "السنۃ"
برمنگھم میں مدیرمجلہ محمد سرور زین العابدین کے قلم سے شائع ہوا تھا ۔
اس کا جیبی سائز کے کتابچے میں مدیر سہ ماہی ایقاظ نے ترجمہ کرکے شائع
کرایا تھا، اُسے معمولی نظرثانی کے بعد ایقاظ میں اس غرض سے شائع
کیاجارہاہے کہ عالم اسلام کے حالات پہلے سے بہتر نہیں ہیں اور نہ ہی سنی
اکثریت والے ممالک میں سربراہان اورمؤثر طبقے کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے ۔
جوہری ایران کے موضوع پر ایقاظ دومضامین شا ئع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے
اگلے شمارے میں اس مناسبت سے ایران جوہری طاقت کے بعد کے عنوان سے ہم
ایران کے پڑوسی ممالک پر منڈلاتے خطرات پر مضمون شائع کریں گے ۔ کیا یہ
اچھنبے کی بات نہیں کہ واشنگٹن اگر واقعی تہران کو جوہری طاقت سے محروم
رکھنے میں سنجیدہ ہے تو اُس کے لئے اُسے سمندر پار سے نہیں آنا پڑے گا ،
مسافت اور قربت کے لحاظ سے دونوں ممالک کبھی اتنے نزدیک نہیں ہوئے تھے !
مختلف
افغان گروپ کئی سالوں سے افغانستان میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں
کبھی ایک گروہ کسی شہر پر قابض ہوجاتا ہے اور کبھی دوسرا گروپ لوٹ کر خون
ریز معرکوں کے بعد پہلے کو اس سے نکال دیتا ہے ۔ اس طرح ، اس بدقسمت ملک
میں جنگیں روز مرہ کی چیز بن گئی ہیں جن سے کسی کو حیرت نہیں ہوتی ۔ نہ
ہی اقوام متحدہ کو ان کی زیادہ پرواہ ہے ۔
ہمسایہ مملک کا
موقف ایک دوسرے سے اپنی اپنی مصلحتوں کے مطابق ہے ۔ ایران اس جنگ کے آغاز
سے ہی شیعہ افغان گروپوں کا حامی ہے ان کی اور ان کے حلیفوں کی ہر طرح
مدد کرتا ہے ۔ پاکستان اس گروپ کی مدد کرتاہے جس پر اسے اطمینان ہوتا ہے
۔ وہ گروپ بدل تو لیتا ہے لیکن یہ تبدیلی مذہبی نقطہ نظر سے نہیں ہوتی ۔
اس کی بنیاد اس کی سیکورٹی کی مصلحتیں ہیں جن کا سب کو علم ہے ۔ یہ
مصلحتیں ایک حکومت سے دوسری حکومت تک بدل بھی جاتی ہے ۔ اسی طرح پاکستانی
افواج کی ترجیحات سیاست دانوں سے مختلف ہیں ۔ ایک حکومت کی تائید یا
دوسری حکومت کی امداد سے قطع نظر جنگ مسلسل جاری ہے ۔ عالمی سطح پر یہ
ایک فراموش شدہ معاملہ ہے ۔ اس عالم میں دنیا نے یہ خبر سنی کہ مزار شریف
پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے ۔ اس خبر میں کوئی نئی بات بھی نہ تھی ۔
1997ء میں بھی اس
شہر پر طالبان کا قبضہ ہوا تھا لیکن پھر حزب وحدت (شیعہ گروپ) اور اس کے
حلیفوں نے آکر نہ صرف طالبان کو شہر سےنکال دیا بلکہ وہاں شرمناک قتل عام
بھی کیا ۔ اس لئے تازہ خبر میں کوئی عجیب یا ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی
بات نہ تھی ۔
صرف ایران تھا جو
طالبان کی طرف سے مزار شریف پر قبضے کے خلاف شدید ردّ عمل کا شکار ہوا ۔
ایران کے ردّ عمل کے دو محور تھے ۔
عسکری محور:
ایران
کے مرشد عام نے پاسدران انقلاب کو ایران افغانستان کی سرحد پر جنگی مشقوں
کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی ستر ہزار کی سپاہ جدید اسلحہ سے لیس وہاں
تعینات کردی گئی اور فوجی مشقیں شروع ہوگئی تھیں ۔ ان مشقوں کے ساتھ ساتھ
طالبان کو دھمکانے ، جنگ شروع کرنے کے اشارے بلکہ بعض اوقات صراحت جنگ کے
ارادوں کا اطہار بھی شروع ہوگیا ۔ دوسری طرف ایران عراق جنگ کے ابتدائی
دنوں کی طرح فوجی مارچ بھی شروع ہوگئے ۔ مشقوں کے اختتام پر اعلٰی ترین
قیادت کی طرف سے یہ احکامات جاری ہوئے کہ حکم ثانی تک پاسداران کے فوجی
دستے سرحدوں پر موجود رہیں گے ۔ طالبان کی طرف سے شیعہ اکثریت کے شہر
بامیان پر قبضہ کے بعد آویزش میں اور زیادہ تیزی پیدا ہوگئی ۔ طالبان پر
دباؤ بڑھانے کے لئے ستر ہزار پاسداران ناکافی سمجھے گئے اور ساتھ ہی مرشد
انقلاب کی طرف سے مختلف بٹالینز پر مشتمل دولاکھ مزید افواج کیلئے
احکامات جاری کردئیے گئے ۔ ان افواج نے بھی جلد ہی ایران افغانستان کی
سرحد پر پوزیشن سنبھال کی ۔ جوابًا افغان فوج نے بھی حرکت میں آکر اس پر
اپنی پوزیشنیں سنبھال لی جس سے دونوں فریقین مکمل حالت جنگ میں آگئے تھے
پروپیگنڈے کا محور:
ایرانی ردعمل کا دوسرا محور سیاسی اور پروپیگنڈے کا تھا ۔ طالبان کے خلاف
میڈیا کو اچھی طرح فعال کردیا گیا ۔ جس نے بھی ایران کے بصری یا سمعی
میڈیا کو دیکھا اسے ایسا محسوس ہوا گویا مسئلہ طالبان کے علاوہ دُنیا میں اور کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا ۔ بقول تہران جاہل وحشیوں کی یہ تحریک جس
نے پر امن افغان باشندوں پر شبخون مار کر ان کے لئے تباہی کے گڑھے کھود
دئیے ہیں اب ہمسایہ ممالک کیلئے شدید خطرہ بن گئی ہے ۔ بلکہ اصل میں یہ
امن عالم کیلئے خطرہ بن گئی ہے ۔ اس شدید خطرے کے پیش نظر تہران نے عرب
بلکہ تمام دُنیا کے مختلف ممالک کی طرف اپنے نمائندے بھیجے تاکہ وہ اس
مصیبت کی گھڑی میں ایران کی مدد کریں ۔ سیکورٹی کونسل میں شکایت داغی گئی
کہ طالبان کے خلاف کاروائی کی جائے ، انہیں روکا جائے اگر باز نہ آئیں تو
جنگ کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ۔
طالبان نے ایسا
کیا جرم کردیا تھا؟ انہوں نے کس جرم کا ارتکاب کیا کہ ایران نے نقارہ جنگ
بجادیا؟ ایران کا کہنا ہے کہ مزار شریف پر قبضے کے وقت طالبان نے سات
ایرانی سفارت کار قتل کردئیے ۔ طالبان کا جواب یہ تھا :
1) ہم مانتے ہیں
کہ بعض طالبان عناصر نے ان کو قتل کردیا لیکن یہ عناصر کسی قانون اور
ضابطے کے پابند نہ تھے ان کے اس عمل شنیع پر انہیں قرار واقعی سزا ملے گی
۔
2) جن ایرانیوں کو قتل
کیا گیا وہ شیعی حزب وحدت کے ساتھ مل کر باقاعدہ لڑائی میں شریک تھے ، وہ
پر امن شہری نہ تھے ۔ ایران طالبان کے قبضے سے پہلے اپنے تمام سفارت
کاروں کو مزار شریف چھوڑنے کا حکم دے چکا تھا ۔ لیکن ان لوگوں نے نتائج
کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
3) طالبان
کے ترجمان مولوی
وکیل متوکل احمد متوکل نے جو بیان دیا اس کا خلاصہ یہ ہے :
1977
میں جب حکومت کے مخالفین نے مزار شریف پر دوبارہ قبضہ کیا تو شیعی وحدت
نے ہزاروں طالبان کو گرفتار کرلیا ۔ بعد ازاں انہیں شہر سے دور گولی مار
کر شہید کردیا گیا تھا ۔ جن صحافیوں نے ان کی لاشیں دیکھی ہیں وہ بتاتے
ہیں کہ ان میں سے اکثر کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔ مزار شریف کےمغربی
علاقوں میں ان کی اجتماعی قبریں اس جرم پر واضح دلیل ہیں ۔ ان گڑھوں میں
طالبان عناصر مدفون ہیں ۔ مزار شریف کی دوبارہ فتح کے بعد
16 دسمبر 1998
میں طالبان نے مزید تین اجتماعی قبریں
دریافت کیں جن میں 900 سنی
مسلمان مدفون پائے گئے تھے ۔ بامیان میں بھی طالبان کی فتح سے پہلے حزب
وحدت نے 30 طالبان قیدیوں کو
شہید کردیا اور 15 کو
ایران بجھوادیا ۔
طالبان کے
ترجمان نے اقوام متحدہ کی طرف سے ایران کی ناروا حمایت اور ایران کے
جھوٹے دعوؤں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔
افغان ترجمان کی
وضاحت اور دیگر ناقابل تردید دلائل وشواہد سے واضح ہوچکا ہے کہ ایران
افغانستان کی خانہ جنگی میں غیر جانبدار نہیں ہے ۔ اس نے آغاز ہی سے شیعہ
گروپوں اور ان کے حلیفوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے رکھا ہے ۔ ورنہ اسے
کیا ضرورت تھی کہ حزب الوحدت کی طرف سے قیدی طالبان کے قتل کے غیر انسانی
غیر اسلامی جرائم کو قابل فخر کارنامہ قرار دے کر ان کی ڈھارس بندھائے ۔
یہ قاتل خود متعصب شیعہ ہوں یا ان کے مفاد پرست سنی حلیف ، ایران کی شیعی
ریاست میں اکرام واعزار کے
مستحق ٹھہرائے جاتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی
منافقت بھی تمام حدود وقیود کو عبور کرچکی ہے ۔ اس کا موقف یہ ہے کہ ہمیں
ان واقعات کا علم نہیں ۔ اجتماعی قبروں کی خبریں اور تصویریں پوری دنیا
میں میڈیا کے سامنے آچکی ہیں ۔ دوست دشمن سبھی جان گئے ہیں ۔ عالمی
تنظیموں اور حقوق انسانی کے اداروں کے ذریعے ان کی تصدیق بھی پوری دنیا
کے سامنے ہوچکی ہے ۔ اگر نہیں جانتی تو صرف اقوام متحدہ!
اس سے ثابت ہوا کہ
مزار شریف پر طالبان کے قبضے کے بعد ایران نے جو موقف اختیار کیا ہے اس
کا سبب سات نام نہاد سفارت کاروں کا قتل نہیں ، ایران خود بھی بین
الاقوامی معاہدوں اور سفارت کاروں کے حقوق کا قائل ملک نہیں ہے ۔ تہران
کے امریکی سفارت خانے پر ایرانی قبضے کا واقعہ دنیا کو ابھی تک نہیں بھولا۔
دوہرے معیار اور
منافقت کو اپنا شعار بنانے والی اقوام متحدہ بھی سفارت خانوں پر قبضے ،
ہوائی جہازوں کے اغوا اور لوگوں کو یرغمال بنانے کے واقعات کو بھول نہیں
سکتی جن میں سے ایک واقعہ اینگلکین چرچ کے ٹیری ویٹ کا ہے جو ثالثی کے
لئے ایران پہنچا اور وہاں جا کر یرغمال بنالیا گیا۔ یہ لوگ کس منہ سے
اقوام متحدہ کے چارٹر ، سفارت کاروں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں !
اگر ہم بالفرض مان بھی لیں کہ ایرانی افراد مزار شریف میں سفارت خانے کی
عمارت میں قتل کئے گئے یا یہ کہ وہ نامزد سفارت کار تھے تو بھی ایران کو
اقوام متحدہ کے چارٹر کی بات نہیں کرنی چاہیے ۔
اب عالمی میڈیا پر
ایرانی فوج کے اجتماع اور افغانستان کی سرحدوں پر ان کے تعین کے حقیقی
اسباب سے پردہ اٹھ رہا ہے ۔ ہر روز خبروں کے ساتھ ذمہ دار لوگوں کی طرف
سے تجزیے ، تبصرے اور اندیشے سامنے آرہے ہیں جو شیعہ ایرانی اور سنی
طالبان سے ملنے والے سیاست دانوں ، سفارت کاروں اور لیڈروں کے بیانات پر
مشتمل ہوتے ہیں ۔ البتہ ان خبروں کو مذہبی پیرائے میں ایران پیش کررہا ہے
سنی ریاستوں کے موقف میں اس اختلاف کا کوئی حوالہ موجود نہیں ہوتا وہ
اپنی سیاسی اور سیکورٹی اور علاقائی مصلحتوں کے حوالے سے بیان دیتے ہیں ۔
یہ احساس صرف اور صرف
ایران میں پیدا ہوا ہے کہ اس بار مزار شریف اور اس کے بعد بامیان کی فتح
سے سنی طالبان کی زیر قیادت ایک ایسی سنی ریاست وجود میں آگئی ہے جو
تہران ساختہ شیعی انقلاب کی برآمد میں رکاوٹ بن سکتی ہے اور یہ کہ ایسی
حکومت برصغیر میں سنی احیا کی شکل اختیار کرسکتی ہے ، اس کے بعد خود
ایران اور باقی اسلامی دنیا بھی یہ سنی اسلام کے احیا کی تحریک بن سکتی
ہے ، اس لئے ابتدا ہی میں اس کونپل کو مسل دینا ضروری ہے ، اگر یہ تن آور
درخت بن گیا تو پھر اسے جڑ سے
اکھیڑنا ممکن نہیں ہوگا ۔
مجھے اس بات کا اعتراف
کرنے دیجئے بلکہ میں ایران کو اس بات کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ
ایرانی اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے شیعہ مختصر ترین وقت میں منظم ہوکر
اپنے اہداف مقرر کرکے اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگ جانے کی حیرت انگیر
صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ سنی یا
وہ لوگ جو اہل سنت کی طرف منسوب ہیں آج بھی اسی کیفیت میں ہیں جو خمینی
انقلاب کے آغاز کے وقت اُن کی تھی ۔ دونوں کا موازنہ بہت تکلیف دہ
ہے ۔
شیعی موقف :
اثنا عشری
شیعوں میں بہت سے اختلافات ہیں ۔ بعض اوقات ان اختلافات
سے نوبت باہمی
تکفیر تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔ ان میں سے بعض معتدل ہیں بعض متشدد ، لیکن
میں نے جب بھی کسی ایسے واقعہ پر غور کیا جس میں شیعہ ایک فریق ہوں تو
واضح ہوگیا کہ اس صورت میں ان کے باہمی اختلافات بھلادئیے جاتے ہیں ۔ فرق
اسلوب اور اپنے کردار کو ادا کرنے کے طریقے میں رہ جاتا ہے ۔
طالبان سے اختلافات
میں بھی بالکل یہی ہوا ہے ۔ ان کے ترجمان رسائل بہت سی زبانوں میں شائع
ہوتے ہیں ، ان کے مرجع ، ممتاز شخصیتیں ، عام لکھنے والے ۔ سب کے نزدیک
اس وقت دُنیا کا واحد مسئلہ تحریک طالبان ہے ،ان کے مطابق ایک وحشی جماعت جو خطے میں امریکی سازشوں کو
پروان چڑھارہی ہے ، مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور فرقہ وارانہ
اختلافات پیدا کررہی ہے ۔
میں نے ان کے بے شمار
لوگوں کے بیانات پڑھے ہیں ، سبھی کا مطالبہ ایک ہے ، طالبان کو فنا کردو
، لبنان کے مرجع اعظم حسین فضل اللہ نے بھی کہا ہے ان کی مجلس اسلامی کے
صدر ، محمد مہدی شمس الدین جو انتہائی معتدل شیعہ سمجھے جاتے ہیں ان کا
بیان بھی کسی متعصب شیعہ سے کم نہیں ۔
شیخ محمد مہدی شمس
الدین نے اسلامی تنظیموں کے قائدین اور کارکنان سے مطالبہ کیا ہے کہ امت
مسلمہ کے اتحاد کی حفاظت کے لئے افغانستان میں ہونے والی قتل وغارت گری ،
احمقوں کے ہاتھوں پھیلنے والی تباہی ، عصمت دری اور خونریزی کے خلاف
متحدہ موقف اختیار کریں ۔ انہوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ طالبان امریکی
ایجنٹ ہیں ۔ یہ نہ قوم پرست ہیں نہ سنی ہیں نہ کوئی اسلامی تحریک ۔ (الشرق
الاوسط ۔17-9-1998)
جناب شمس الدین اور ان
کے بیان سے اتفاق کرنے والے اور ان کی اعتدال پسندی کو حقیقت سمجھنے والے
حضرات کی خدمت میں ہم مندرجہ ذیل حقائق پیش کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں ان
کا موقف کیا ہے؟
1970ء میں شیعی حزب
وحدت نے مزار شریف میں جن طالبان کو ذبح کیا ان کی خبر جناب شمس الدین تک
پہنچی ؟ ایک اجتماعی قبر سے نو سو لاشیں برآمد ہوتی ہیں ۔ کیا یہ قابل
فخر اسلامی کارنامہ تھا؟ یا یہ طالبان اہل سنت کے کافر اور امریکی ایجنٹ
تھے ۔ جو سات شیعہ مقتولین کے ایک پاؤں کے برابر بھی قرار نہیں دئیے
جاسکتے؟
قابل صد حترام (یہ لفظ
(قابل صد حترام) مصنف اور مترجم نے ایسا ہی لکھا ہے ہم اس جملہ سے متفق
نہیں ہیں ۔ ویب ماسٹر) کی وسعت قلبی اور دل گزاری ان مذبح خانوں کے بارے
میں کیا کہتی ہے جو لبنانی شیعوں نے ان کے شہر بیروت کے فلسطینی کیمپوں "صبرا"
اور "شتیلا" میں برپا کئے جہاں حضرت شمس الدین کا اپنا قیام ہے کیا حضرت
نے درد کی ماری ماؤں کی چیخیں سنی تھیں جو معصوم بچوں کے قتل پر بلند
ہوئی تھیں ، کنواری لڑکیوں کی عصمت دری کی انہیں خبر ہوئی تھی جن کا قصور
صرف یہ تھا کہ وہ سنی تھیں! ان بوڑھوں کی فریاد ان کے کانوں تک پہنچی جو
بے گناہ قتل کئے گئے یا ان معصوم بچوں کی دلخراش چیخیں سنائی دیں جنہیں
ماؤں کی گود سے چھین کر شیعہ تنظیم "امل" کے جیالوں نے قتل کرکے پہلے سے
کھودے ہوئے گڑھوں میں ڈال دیا تھا ۔ عزت مآب شمس الدین ان واقعات
کی کوئی
تو انسانی ، اسلامی تعبیر فرماتے ہوں گے ؟
یہودیوں اور میرونی
عیسائیوں کی ایجنٹی کرتے ہوئے نہتے فلسطینی کیمپ میں جو انسانیت سوز
مظالم ڈھائے گئے ان کے بارے میں آپ کوئی باریک فسفیانہ وجوہات تو پیش
فرماتے ہوں گے ہمیں بھی ان سے آگاہ کریں یا آپ کے خیال میں یہ استعمار کا
جھوٹا پروپیگنڈا ہے جو فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے پھیلایا گیا ہے ۔
اسلامی اتحاد شیعی کا
مفہوم یہ ہے کہ آپ حضرات ہمارے بچوں کو ذبح کریں ، بے گناہوں کو قتل کریں
، اپنا مسلک ہر ذریعہ سے پھیلانے کی کوشش فرمائیں اپنا شیعی انقلاب ہمارے
ملکوں کو برآمد فرمائیں اور ہم خاموش رہیں اگر ہم آپ سے عرض کریں کہ جناب
ہاتھ روک لیجئے ، ہماری گردنوں سے تلواریں اٹھالیجئے تو ہم عالمی استعمار
کے ایجنٹ ، جاہل اور شرپسند ٹھہرائے جائیں؟
جناب شمس الدین کا
ارشاد ہے "طالبان امریکی ایجنٹ ہیں ، یہ نہ قوم پرست ہیں نہ سنی اور نہ
ہی کوئی اسلامی تحریک " ۔
حضور یہ بھی بتادیجئے
کہ آپ اس نتیجے تک کیسے پہنچے؟ آپ کے ارشادات کا ایک ایک جملہ عجائب پر
مبنی ہے ، ایک ایک قدم پر ایک نیا انکشاف ہے ۔
ہماری معلومات تو یہ
ہیں اور ساری دنیا بھی یہی جانتی ہے کہ امریکہ نے طالبان کو تسلیم نہیں
کیا ، اقوام متحدہ نے بھی تسلیم نہیں کیا ۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کے
علاوہ ساری مغربی دنیا برہان الدین ربانی اور ان کی حلیف حزب وحدت کی
حکومت کو قانونی حکومت مانتی ہے ۔ ان دونوں کی سرپرستی ایران ہی فرمارہا
ہے ۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان تو ایک بہت بڑی مشکل بھی موجود ہے جس
کا کوئی حل نہیں ۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اسامہ بن لادن اور دوسرے تمام عرب
مجاہدین جو کمیونسٹوں کے خلاف جہاد کرتے رہے ہیں ، انہیں وہ امریکہ کے
حوالے کردیں ۔ طالبان نہ صرف انکار کررہے ہیں بلکہ ان کا موقف تو یہ ہے
کہ اگر امریکہ کینیا اور تنزانیہ میں اپنے سفارت خانوں کی تباہی میں
اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت پیش کردے تو بھی ان
مجاہدین کو امریکہ کے سپرد نہیں کیا جائے گا کیونکہ شرعاً کسی
مسلمان کو مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے لئے کفار کے سپرد نہیں کیا جاسکتا
۔ تیسری بات یہ ہے کہ امریکہ تو اپنے خیال کے مطابق دہشت گردوں کو پناہ
دینے کے جرم میں افغانستان پر میزائیلوں سے حملہ کرچکا ہے ۔ حضرت شمس
الدین کیسے یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان تمام حقائق کو جھٹلادیں اور ان کے دعوے
کو قبول کرلیں؟
لبنان میں شیعی مجلس
اسلامی کے صدر نشین اگر بغیر کسی دلیل کے یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ
طالبان امریکی ایجنٹ ہیں تو ہم ان پر امریکی ایجنٹ ہونے کے محض الزامات
نہیں ، دلیلیں ان کی خدمت میں پیش کئے دیتے ہیں ۔
معزول آنجہانی شاہ
ایران اور ان کی حکومت کے ذمہ دار لوگوں نے اپنی اپنی ڈائریوں میں تفصیل
سے ذکر کیا ہے امریکہ خمینی کے انقلاب کی حمایت کے لئے شاہ کے نظام کے
خلاف سازشوں میں پوری طرح شریک تھا ۔ سابقہ امریکی عہدیداران کی بھی اسی
طرح کی ڈائریاں
سامنے آچکی ہیں ۔
خمینی انتظامیہ بھی
ایسے روابط کا اعتراف کرچکی اگرچہ ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا کہ خمینی خود
ان روابط سے لاعلم تھے ۔ جب یہ حقائق سامنے آئے تو خمینی نے سرکاری اعلٰی
عہدے داروں بشمول قطب زادہ کی معزولی کے احکامات صادر فرمائے ۔ انہیں
اپنے دفاع کا قانونی حق بھی نہیں دیا گیا ۔ آخر ایسی جلد بازی کس خطرے کے
پیش نظر کی گئی تھی۔
جب عراق ایران جنگ
زوروں پر تھی تو مختلف قسم کے اسلحے سے لدا ہوا ایک امریکی جہاز تہران کے
ہوائی اڈے پر اترا ، امریکی ایسٹیبلشمنٹ کا وفد بھی ساتھ آیا تھا تاکہ
ایرانی حکومت کو اپنے خلوص کا یقین دلاسکے اور دونوں ملکوں کے درمیان اب
تک خفیہ رابطوں کو مضبوط بناسکے ۔ لیکن پوری کوشش کے باوجود راز ، راز نہ
رہ سکا ۔ تہران کو مجبوراً جہاز کے اترنے اور وفد کے پہنچنے کا اعتراف
کرنا پڑا ۔ یہ بھی ماننا پڑا کہ یہ سب جناب خمینی کی اجازت سے ہوا تھا ۔
اس سلسلے میں ہم جناب
شمس الدین کی توجہ ان وثائق کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو امریکہ میں
ایران گیٹ کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ ہمارا
دعویٰ بلادلیل نہیں ۔ انہیں یاد ہوگا کہ ایرانی قیادت نے اس سے قبل
امریکہ کو "شیطان عظیم" کا خطاب عطا کیا تھا ۔ جب وہ اس بڑے شیطان سے
تعاون لے سکتے ہیں تو چھوٹے شیطان ، ابلیس لعین سے تعاون لینے میں کیا
عار محسوس کرتے ہوں گے ۔
اگر یہ سب دلیلیں اپنی
اہمیت کے باوجود جناب شمس الدین کےلئے کافی نہیں تو اس سے بڑی دلیل بھی
موجود ہے اور ان کی پیش خدمت ہے ۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ
ایک اسرائیلی طیارہ یوکرائن کے سرحدی علاقوں میں گرگیا ، دنیا بھر کے
صحافی پیچھے پڑگئے کہ طیارہ گرنے کے اسباب معلوم کریں ۔ تحقیقات کے بعد
انکشاف ہوا کہ یہ اسرائیلی طیارہ اسرائیلی ساخت کے اسلحے سے بھرا ہوا تا
اور خفیہ پرواز پر ایران جارہا تھا ۔ اسلحہ لے جانے والا یہ پہلا
اسرائیلی طیارہ نہیں تھا اور نہ ہی مشترکہ دشمن ۔۔۔۔ عراق۔۔۔۔ کے خلاف
اسرائیل اور ایران کے درمیان یہ پہلا دفاعی نوعیت کا تعاون تھا ۔
یہ محض چند مثالیں ہیں
۔ جناب شمس الدین سے گزارش ہے کہ آپ کی طرف سے طالبان پر لگائے گئے
الزامات پر اگرچہ آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں لیکن ہمارے پاس ایرانی آیۃ
اللھی نظام امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کی اور بہت سی دلیلیں موجود
ہیں ۔ بلکہ پوری اسلای تاریخ آپ حضرات کی طرف سے اہل سنت کے خلاف کفار سے
تعاون اور یکجہتی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔
سنی موقف :
افغانستان
میں طالبان کی فتوحات کے بارے میں جو کسی بھی طرح شیعہ سنی فرقہ وارانہ
مسئلہ نہیں ، دنیا بھر کے شیعوں کا موقف ایک ہے ۔ان کا ہدف بھی ایک ہے ،
طالبان کوفنا کردینے کا مطالبہ بھی مشترکہ ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں
سنی موقف نہایت بودا اور غیر واقعیاتی ہے اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں
۔
۔۔۔۔۔۔۔ہم اپنے
"مرکز تحقیقات اسلامی برمنگھم" میں اہل سنت کے مسائل اور ان میں طالبان
کی خبروں اور وقائع کا مستقل مطالعہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ دعویٰ
نہیں کرسکتے کے ہمارے پاس ہر قسم کی اور بالکل یقینی معلومات ہیں ۔ اس
لئے ہم کوئی ناقابل تردید موقف اختیار کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتے ۔ اگر
ہماری پیش کردہ مثالوں کے بارے میں کسی طرف سے کوئی قابل قبول وضاحت یا
تردید آگئی تو ہم بلا تامل اسے تسلیم کرلیں گے ۔ تاہم اب تک ہماری
معلومات کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک طالبان ، افغانستان اور پاکستان کے دینی
مدارس اور جامعات میں پڑھنے والے (افغان) طلبہ کی تحریک ہے ۔ بیشتر طلبہ
یونس خالص (رحمہ اللہ) اور مولانا جلال الدین حقانی کی قیادت میں روس کے
خلاف جہاد میں شریک کار رہے ہیں ۔ جنگ کے بعد یہ اپنے مدارس میں
لوٹ آئے ۔ لیکن جب افغان مجاہدین کی مختلف تنظیموں کے درمیان خانہ جنگی
شروع ہوئی اور ختم ہونے کے بجائے پھیلتی چلی گئی اور اس کے نتیجے میں
جانی اور مالی نقصان نقصان حد سے بڑھ گیا اور ان برسر پیکار گروپوں کے
درمیان صلح کی کوئی صورت بھی کامیاب نہ ہوئی تو ان طلبہ نے خانہ جنگی میں
ملوث جہادی تنظیموں سے اپنے وطن کو نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا ۔ انتہائی
کم وقت میں یکے بعد دیگرے صوبوں پر صوبے ان کے تسلط میں آنے لگے ۔
کہا جاتا ہے کہ بعض تنظیموں کی ملیشیا طالبان کے خلاف اپنے قائدین کے
احکامات کو ماننے سے انکار کردیتی تھی ۔ افغانوں کے دلوں میں علماء اور
طلبہ کا حد سے زیادہ احترام پایا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
پاکستان کی مدد بھی انہیں حاصل تھی ۔ ہم پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں
پاکستانی فوج دفاعی معاملات میں سول حکومت کی پالیسیوں کی پرواہ نہیں
کرتی ۔ ہاں فوج اس بات کی تردید ضرور کرتی ہے کہ انہوں نے طالبان سے
تعاون کیا ہو۔
افغانستان اور پاکستان
سے آنے والے واقفان احوال کے ذریعے یہ مصدقہ خبریں سامنے آئیں کہ طالبان
نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں مکمل طور پر امن و امان قائم کردیا ہے ۔ اس
کے ساتھ ہی انہوں نے خود کو کسی ایک سیاسی جماعت کی تائید یا کسی کی
مخالفت سے بھی الگ تھلگ کررکھا ہے ۔مختلف سیاسی معاملات میں خود کو غیر
جانبدار رکھتے ہوئے انہوں نے اپنے پیش نظر صرف ایک کام رکھا ، یعنی
اسلامی شریعت کا مکمل نفاذ۔
سابقہ جہادی تنظیمیں
شروع سے ان کی مخالف تھیں ۔ یہ بھی فطری بات تھی کہ ایران بھی طالبان کو
ناپسندیدہ عناصر قرار دے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ طالبان حنفی مذہب کے
پابند ہیں ِ حنفی طلبہ کا شیعہ کے بارے میں موقف
بھی غیر معروف نہیں ۔
ہم اس تحریک کے بارے
میں یہی جانتے ہیں ۔ یہ معلومات مکمل نہیں ، ان سے مل کر ان کی طرف منسوب
الزامات پر براہ راست ان سے بات کرکے ہی حتمی نتیجے تک پہنچا جاسکتا ہے ۔
طالبان پر اب جتنے بھی الزامات لگائے گئے ہیں وہ ایران یا سابقہ ایران
نواز جہادی تنظیموں نے لگائے ہیں اور ان الزامات کو کوئی بھی غیر
جانبدارانہ نہیں سمجھتا۔
سنی ملک میں سے سوڈان
کے صدر عمرالبشیر کا طالبان کے بارے میں بیان شرمناک حد تک غیر ذمہ
دارانہ تھا ۔ ایرانی صدر کے مشیر محمد علی تسخیری کا خرطوم میں استقبال
کرتے ہوئے کہا : طالبان ملیشیا اسلام کی غلط تصویر پیش کررہی ہے ۔ سوڈان
کے اخبار الرای العام نے ان کا بیان نقل کرتے ہوئے اپنی اشاعت میں لکھا
ہے کہ عمر البشیر نے الزام لگایا ہے کہ طالبان عورتوں کی تعلیم ، اظہار
رائے اور ملازمت کے حق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔ وہ ٹیلی ویژن پر نہیں
آسکتی ہیں اور نہ غیر متحرک تصویر کھنچواسکتی ہیں ۔ انہیں کاشت کاری کا
پیشہ اختیار کرایا جاتا ہے جہاں وسیع پیمانے پر پوست کی کاش ہوتی ہے ۔
سوڈان کے صدر ملک میں
اسلام کے نفاذ کا دعویٰ کرتے ہیں ، ایران کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہ
غیر ذمہ دارانہ اور غیر مدلل بیانات انہیں عالم اسلام میں باوقار نہیں
بناسکیں گے ۔ اس سے پہلے وہ سوڈان میں زنابالجبر کی اسلامی شریعت کی سزا
"رجم" منسوخ کرکے بھی اپنے آپ کو اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے گراچکے
ہیں۔
اہلسنت سے منسوب ایک
دینی تنظیم کے نمائندے نے کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ عراق کے
مقابلے میں ہم نے اسلامی ملک ایران کی حمایت کی ہے ۔ ہم نے عرب قوم پرستی
کو چھوڑ کر اصولوں کو اپنایا ہے ، مظلوم کا ساتھ دیا ہے ، ایک ایسا ملک
جو اسرائیل اور امریکہ کا دشمن نمبر ایک ہے ۔ اس کی حمایت کرنا ایک اصولی
موقف تھا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
( بشکریہ سہ ماہی ایقاظ ملتان پاکستان)
|