کفار اور مشرکین سے دشمنی
اور عداوت فرض ہے
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ
نحمدہ
ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!
آپ اس
بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اللہ تعالٰی نے کفار اور مشرکین سے دشمنی اور عداوت کو
فرض قرار دیا ہے اور اس کو اختیار کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے ۔ اسی طرح کفار اور
مشرکین کے ساتھ دوستی اور محبت کرنے کو حرام قرار دیا اور سختی سے اس بات کو منع
فرمایا ہے ۔
اس
ممانعت کی شدت کو اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں توحید کی فرضیت اور
شرک کی حرمت کے بعد سب سے زیادہ اسی حکم کا تذکرہ موجود ہے کہ مشرکین سے دوستی حرام
اور ان سے دشمنی فرض ہے ۔
قرآن
حکیم سے دلائل
اللہ
تعالٰی نے فرمایا:
وَاِذَ
قِیلَ لَھُم
لَا تُفسِدُوا
فِی الاَرضِ
قَالُوا اِنَّمَا
نَحنُ مُصلِحُونَ
۔
البقرۃ:11
اور
جب ان سے کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو وہ کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے
والے ہیں ۔
اس
آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
منافقین
اپنے
رب کی نافرمانی کرتے
ہوئے زمین
میں فساد پھیلاتے ہیں جن اعمال سے ان کو روکا جائے اسی کا ارتکاب کرتے ہیں اللہ
تعالٰی کے عائد کردہ فرائض کوضائع کرتے ہیں۔اور اللہ کے دین کے بارے میں شکوک
وشبہات میں مبتلا رہتے ہیں حالانکہ یہ دین دلی تصدیق اور اس کی حقیقت پرایمان لائے
بغیر قابل قبول نہیں ہوتا اور یہ
منافقین اپنے
جھوٹے دعوؤں سے مؤمنین کو جھٹلاتے ہیں حالانکہ اپنے دعوؤں کے برخلاف وہ خود جھوٹ
اور شک پر
قائم ہوتے ہیں
۔
اور کبھی یہ موقع
پاجائیں تو اللہ تعالٰی کے دوستوں کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسولوں اور نازل
کردہ کتابوں کو جھٹلانے والے بنتے ہیں دراصل یہی لوگ حقیقی فساد پھیلانے والے ہیں
۔
اسی
آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
درحقیقت مؤمنوں کا کافروں کو دوست ٹھہرانا ہی فساد فی الارض ہے
۔
جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعضُھُم اَولِیَاءُ بَعضٍ اِلَّا تَفعَلُوہُ تَکُن فِتنَۃٌ
فِی الاَرض وَفَسَادٌ کَبِیرٌ (الانفال:۷۳)
کافر
آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم نے
ایسا (یعنی
آپس میں گہری دوستی کا تعلق قائم )
نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور زبردست فساد پیدا ہوجائے گا۔
اس
آیت میں اللہ تعالٰی نے مؤمنین اور کفار کی باہم دوستی سے منع فرمایا ہے اسی مضمون
کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا :
یَااَیُّھَا الَّذِینَ
آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الکَافِرِینَ اَولِیَاءُ مِن دُونِ المُؤمِنِینَ
اَتُرِیدُونَ اَن تَجعَلُوا لِلّٰہِ عَلَیکُم سُلطَانًا مُبِینًا ۔ (النساء)
اے ایمان والو! مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے
اوپر اللہ کی حجت قائم کرلو
ایک طرف اس طرح کے
واضح احکامات ہیں دوسری طرف لوگوں کا یہ کہنا کہ (انما نحن مصلحون)ہم تو صرف اصلاح
کرتے ہیں یعنی ہم تو چاہتے ہیں ہم مسلمان اورکافروں دونوں فریقوں کے درمیان رہیں
اور ان کی اصلاح کریں بالکل غلط سوچ ہے ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
اَلَا اِنَّھُم ھُمُ
المُفسِدُونَ ۔ (البقرۃ)
"خبردار درحقیقت یہی فساد کرنے والے ہیں"
اس کے بعد امام ابن
کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ہیں جو حد سے گزررہے ہیں اور گمان یہ کررہے
ہیں کہ ہم اصلاح کررہے ہیں ۔ حالانکہ یہی تو عین فساد ہے لیکن جہالت کے مارے سمجھ
نہیں رہے کہ (بیک وقت مؤمنین اور کفار سے دوستی رکھنا بجائے خود فساد ہے) ہم نےاکثر
اوقات دیکھا ہے کہ جب ان لوگوں سے دریافت کیا جائے کہ کیا بات ہے ، تم برائیاں اور
فساد پھیلانے والوں کی محفلوں اورمجالس میں کیوں بیٹھتے ہو؟ وہ فوراً جواب دیتے ہیں
: ہم تو ان سے دنیوی فوائد حاصل کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے ہمارے معاملاتِ زندگی سنور
اور سدھر جاتے ہیں ، ہمارے تو ان کے ساتھ اچھے مراسم ہیں، ان میں سے کچھ لوگ ایسے
بھی ہوتے ہیں جنہوں نے ان لوگوں کے سلسلے میں کبھی اللہ سے اچھاگمان نہیں رکھا کہ
اگرکبھی یہ لوگ غالب آگئے اور مؤمنین مغلوب ہوگئے توہمارا کیا بنے گا۔ یہ لوگ اللہ
سے اسی بدگمانی کی بناء پر اہل باطل کو اپنا دوست بناتے ہیں ، ان کے ساتھ تعلقات
قائم رکھنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ ہر حال میں ان کے ساتھ راضی رہتے ہیں ، گویا
زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ نَخشٰی اَن تُصِیبَنَا دَائِرَۃٌ "ہم ڈرتے ہیں
کہ ہم پر کوئی مصیبت نہ آجائے (المائدۃ)(یعنی یہ لوگ صرف اس بناپر کفار سے دوستی
رکھتے ہیں کہ یہ کہیں ہمارے لئے کوئی پریشانی نہ کھڑی کردیں ۔ ان کو اللہ اور عذابِ
آخرت کا کوئی خوف نہیں بلکہ دنیاکی پریشانی سے بچنے کے لئے کفار سے دوستی ضروری
سمجھتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
اَلَآ اِنَّھُم ھُمُ
المُفسِدُونَ وَلَکِن لَّا یَشعُرُونَ ۔ (البقرۃ)
"جان رکھوکہ یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر یہ سمجھ نہیں رکھتے"
اور فرمایا:
بَشِّرِ المُنَافِقِینَ بِاَنَّ لَھُم عَذَابًا اَلِیمًا ، اَلَّذِیںَ یَتّخِذُونَ
الکَافِرِینَ اَولِیَاءَ مِن دُونِ المؤمِنیِنَ اَیَبتَغُونَ عِندَھُمُ العِزَّۃَ
فَاِنَّ العِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیعًا ۔ (النساء)
"منافقوں کو خوشخبری سنادو کہ ان کے لئے دردناک عذاب یقینی ہے جن کی یہ حالت ہے کہ
مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے پھرتے ہیں ۔ کیاان کے پاس عزت کی تلاش
میں جاتے ہیں؟ (تویاد رکھیں کہ )عزت تو ساری کی ساری اللہ کے قبضے میں ہے"
پھر اسی سورت کی
دوسری آیت میں فرمایا:
یَااَیُّھَا
الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الکَافِرِینَ اَولِیَاءَ مِن دُونِ المُؤمِنِینَ
اَتُرِیدُونَ اَن تَجعَلُوا لِلّٰہِ عَلَیکُم سُلطَانًا مُبِینًا ۔ (النساء)
اے ایمان والو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ ، کیا تم چاہتے ہو کہ
اپنے اوپر اللہ تعالٰی کی حجت قائم کرلو؟
امام ابن کثیر رحمہ
اللہ نے فرمایا: اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کی صفات بیان کی ہیں جو مؤمنوں
کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ، یہ درحقیقت ان کے ساتھ ہی ہیں اور ان کے
ساتھ خفیہ ؤشنائی رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ مؤمنوں سے علیحدگی میں اپنے دوستوں (مشرکین)سے
کہتے ہیں:
اِنَّا مَعَکُم
اِنَّمَا نَحنُ مُستَحزِؤُنَ ۔ (البقرۃ)
ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ، ہم تو صرف مذاق کررہے تھے۔
یعنی ہمارا مؤمنوں
سے اظہارِ محبت صرف مذاق کے طور پر ان سے ظاہری موافقت کی حد تک ہے ۔ اللہ تعالٰی
نے ان کافروں سے دوستی کرنے والوں سے سخت ناراضگی کا اظہار کیافرمایا ہےکہ:
اَیَبتَغُونَ
عِندَھُم العِزَّۃَ ۔
کیا یہ لوگ ان کے پاس عزت کی تلاش میں جاتے ہیں؟
پھر وضاحت فرمائی
کہ عزت اور سربلندی تو فقط اللہ وحدہ لاشریک کے پاس ہے ۔ یا اس کو عزت ملتی ہے جسے
اللہ تعالٰی عزت بخش دے ۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
مَن کَانَ یُرِیدُ
العِزَّۃَ فَلِلّٰہِ العِزَّۃُ جَمِیعًا۔ (فاطر)
جو شخص عزت کا متلاشی ہے وہ جان لے کہ عزت تو تمام کی تمام اللہ کے پاس ہے۔
اسی بات کو دوسری
آیت میں یوں بیان فرمایا:
وَلِلّٰہِ العِزَّۃُ
وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُؤمِنِینَ ۔ (المنافقون)
اور عزت تو اللہ ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)اورمؤمنین کے لئے ہے ۔
ان تمام آیات کا
مقصد لوگوں کو صرف اللہ تعالٰی سے طلب عزت پر ابھارنا ہے ۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ
لوگوں کی توجہ اللہ کی بندگی کی طرف مبذول کرائی جائے جن کے لئے اس دنیا میں بھی
مدد ونصرت ہے اور قیامت کے دن بھی ۔ ان شاء اللہ۔
جب ان مذکورہ بالا
دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کافروں سے دوستی کرنا منافقین کا شیوہ ہے : تو یہی
بات اس کے حرام وممنوع ہونے کے لئے کافی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
لَا یَتَّخِذِ
المُؤمِنُونَ الکَافِرِینَ اَولِیَاءَ مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَمَن یَفعَل ذَلِکَ
فَلَیسَ مِنَ اللّہِ فِی شَی ءٍ ۔ (آل عمران)
مؤمنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۔ جو
ایسا کرے گا وہ اللہ کی کسی حمایت میں نہیں۔
اس آیت میں واضح
طور پر منع کیا گیا ہے کہ کافروں سے دوستی نہ رکھو۔ اور فرمایاکہ : "جو ایسا کرے گا
، یعنی جو ان سے تعلق رکھے گا اللہ تعالٰی اس سے تعلق نہ رکھے گا ، یعنی وہ اللہ سے
بری ، اللہ اس سے بری۔ اس آیت میں (کفار سے دوستی کرنے والوں کے لئے)سخت ترین ڈانٹ
اورتنبیہ ہے تاکہ اسلام اور توحید کی حفاظت ہوسکے ۔
|