|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
کفر دون کفر والی مذکورہ حدیث کی ابومحمد عاصم المقدسی "امتاع النظر"میں لکھتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے اس حدیث کی درایۃً و روایتًا حقیقت ثابت ہوچکی ہے ۔ درایتًا: اگر ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول صحیح مان لیا جائے تو اور لوگوں سے اس کے ہم معنی صحیح سند سے ثابت ہوچکا ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوگا یہ صرف خوارج پر ردّ ہے جنہوں نے جناب علی رضی اللہ عنہ ، معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کو کافر قرار دینے کا ارادہ کیا تھا جب ان دونوں حضرات میں خلافت کے معاملے میں اختلاف ہوا اور دو صحابہ عمروبن عاص اور ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہما کو فیصلہ کرنے کے لئے حکم مقرر کیا گیا تو خوارج نے اعتراض کیا کہ حکمتم الرجال تم نے انسانوں کو فیصلے کا اختیار دیا ہے جبکہ اللہ نے فرمایا ہے۔
حالانکہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ خوارج کی یہ رائے غلط تھی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف اگرچہ ایک دوسرے پر ظلم کا سبب بھی بنا ہو مگر کفر نہیں تھا کہ انہیں ملت سے خارج کردیتا ۔ جناب علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو خوارج کے پاس بھیجا کہ ان سے اس بارے میں مذاکرات کریں انہیں سمجھائیں قائل کریں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پاس گئے تو انہوں نے بات کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا تم لوگوں نے دونوں فیصلہ کرنے والوں پر اعتراض کیا ہے حالانکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ :
اب امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے اختلاف دور کرنے کے لیے) کیا کیا جائے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ نے لوگوں کو فیصلہ کرنے کا اپنا اختیار نہیں دیا ہے لوگ اپنے معاملات میں غور وفکر کرنے کے مجاز ہیں مگر اللہ نے جو فیصلہ کردیا اس میں انسانوں کو غور کرنے (یا تبدیلی) کرنے کی اجازت نہیں ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ فرماتا ہے :
انہوں نے کہا (یہ آیت شکار اور کھیتی باڑی سے متعلق ہے) کیا آپ شکار ، کھیتی اور میاں بیوی کے فیصلوں کی طرح مسلمانوں کے خون کا فیصلہ کریں گے ؟ کیا آپ کے خیال میں عمروبن عاص عادل حکم ہے جبکہ وہ کل تک ہم سے جنگ کرتا رہا اگر وہ عادل ہے تو پھر ہم عادل نہیں؟ تم لوگوں نے اللہ کے حکم میں انسانوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا؟ اس مناظرہ ومذاکرہ کے بعد ان میں سے بہت سے لوگوں نے حق کی طرف رجوع کرلیا اور کچھ اپنی گمراہی پر ڈٹے رہے اور جناب علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے الگ ہوگئے (جب مذکورۃ الصدر فیصلہ دونوں حکمین نے کیا تھا) ان لوگوں کو ہی خوارج کہا جاتا ہے ۔ موجودہ زمانے کے مرجئہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر تابعین جیسے طاؤس رحمہ اللہ اور ابومجلز کے اقوال کو جو کہ خوارج کے بارے میں لے لیا اور انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا تاکہ اسے بے محل وبے موقع استعمال کرتے رہیں اور اسے دلیل بنادیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کفر دون کفر کہا ہے حالانکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے الفاظ ہیں :
اس میں "تذھبون الیہ" کا جملہ خوارج کی غلطی کی نشان دہی اور اصلاح کے لئے ہے ۔ جبکہ آیت میں ان لوگوں کو کافر کہا گیا ہے جو اللہ کی شریعت کو تبدیل کرتے ہیں چاہے وہ یہود ہوں یا نصاریٰ ہوں یا کوئی اور (مزید تفصیل آگے آئے گی) کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما یا اور کوئی مسلمان اللہ کے حکم یا حدود اللہ کو تبدیل کرنے والے کے اس عمل کو کفر دون کفر کہہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مذکورہ قول اگر صحیح بھی ثابت ہوجائے تو یہ آیت کی تفسیر نہیں بلکہ خوارج کے غلط خیال کے ردّ میں ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ گمراہ لوگوں کے دہوکہ میں نہ آئیں علامہ احمد محمد شاکر السلفی رحمہ اللہ عمدۃ التفاسیر کے تعلیق میں فرماتے ہیں کہ یہ آثار جو ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی طرف منسوب ہیں ۔ ہمارے زمانے کے گمراہ لوگ جو عالم کہلاتے ہیں ان کے لئے یہ آثار کھلونا بنے ہوئے ہیں وہ ان آثار سے وضعی قوانین کے جواز کی دلیل لیتے ہیں جو آج کل اسلامی ممالک میں وضع کیے جارہے ہیں ۔ دوسری جگہ اپنے بھائی احمد شاکر رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں جو انہوں نے ان جیسے آثار کے بارے میں کہا ہے جو ابومجلز وغیرہ سے تفسیر طبری میں منقول ہیں کہتے ہیں اے اللہ میں گمراہی سے براءت کا اعلان کرتا ہوں ۔ شکوک وشبہات پھیلانے والوں نے ہمارے اس دور میں ایسی گفتگو کا آغاز کردیا ہے جس کی وجہ سے حکمرانوں کو جواز مل رہا ہے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کے بجائے اور قوانین کو اپنائیں لوگوں کے مال ،جان ، عزت میں اللہ کی شریعت کے بجائے اہل کفر کے قوانین اختیار کریں اور یہ سب کچھ اسلامی ممالک میں ہے ۔ جب یہ حکمران (ابن عباس رضی اللہ عنہما و طاؤس رحمہ اللہ) کے ان اقوال سے باخبر ہوجاتے ہیں تو وہ انہیں اس بات کی دلیل بنالیتے ہیں کہ مال ،جان ، عزتوں کے فیصلے اللہ کی شریعت کے علاوہ انسانوں کے وضع کردہ قوانین کے مطابق کئے جاسکتے ہیں اور عوام کے لیے کئے جانے والے فیصلوں میں اللہ کی شریعت کی مخالفت سے آدمی کافر نہیں ہوتا ۔ شیخ فرماتے ہیں کہ یہ آثار واقوال خوارج کے ساتھ مناظرے کے دوران کے ہیں جو اپنے زمانے کے حکمرانوں (علی و معاویہ رضی اللہ عنہما) کو کافر قرار دینا چاہتے تھے حالانکہ ان کا ایسا کوئی جرم نہیں تھا جسے دلیل بنالیا ہے کہ مال ، جان وغیرہ کے فیصلے خلاف شریعت قانون کے مطابق بھی ہوسکتے ہیں تو یہ دلیل غلط ہے نہ ہی ایسا قانون بنایا جاسکتا ہے نہ ہی مسلمانوں پر لاگو کیا جاسکتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو چھوڑ کر اپنانا پڑے ۔ اس طرح کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے اعراض وروگردانی ہے اور کافروں کے قوانین کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر ترجیح دینا یہ ایسا کفر ہے کہ جس میں کسی اہل قبلہ کو شک نہیں ہے ۔ کوئی بھی انصاف پسند شخص جو حق کا متلاشی ہو یہ سب کچھ جان لیتا اور ان اقوال و آثار کے ورود کا محل اور وجہ بھی سمجھ جاتا ہے اور جن لوگوں کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کہا تھا ان کے بارے میں معلوم کرلیتا اور پھر اپنی عقل اور بصیرت سے کام لے تو جو بات ہم کررہے ہیں کہ اللہ کے دین اور شریعت کے ہوتے ہوئے قانون بنانا یا اللہ کے احکام کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے ہوئے معمولی اور کمتر قوانین کو اپنانا انسانوں کی آراء و خواہشات کے پیچھے چلنا اور اللہ کے احکام ، شریعت اور حدود کو چھوڑنا ، ان سب پر غور کرتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ ان آثار و اقوال کو لے کر موجودہ زمانے کے مرجئہ بہت بڑی واضح گمراہی پھیلارہے ہیں تلبیس سے کام لے رہے ہیں کہ ان آثار کو اس جگہ اور اس مقصد کے لئے پیش کررہے ہیں کہ جس کے لئے یہ نہیں تھے ۔ یہ ان موجودہ مرجئہ کا بہت بڑا جرم ہے۔ کیا علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (جن کے بارے میں خوارج نے فتوے لگائے ہیں) کیا وہ خود کو اس بات کا مجاز سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کی شریعت کے ہوتے ہوئے اپنی طرف سے قوانین بنائیں یا کفریہ دستور و آئین مرتب کریں جیسا کہ آج کل اسلامی ممالک کہلانے والوں میں عام رواج ہے؟ حاشا وکلا ایسا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (نعوذ باللہ) قوم کی خواہشات اور اکثریت کی رائے کی مدنظر قوانین وضع کئے تھے ؟ اور انہیں اللہ کے نازل کردہ پاکیزہ حدود کے بدلے میں رائج کیا تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس الزام سے پاک ہیں وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے صحابہ تو کیا اس زمانے کے عام ان پڑھ لوگ بھی اس طرح کے صریح کفر کے بارے میں نہیں سوچ سکتے بلکہ اس زمانے کے بے وقوف اور پاگل بھی اس طرح کے کفر کے مرتکب نہیں ہوسکتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجعین تو وہ لوگ تھے جنہوں نے دین اسلام کی بلندی کے لئے صحراء کے ریت کو اپنے خون سے رنگین کیا ۔ اگر اس زمانے میں کوئی شخص واقعی ایسی کوئی حرکت کرتا تو خوارج کبھی بھی غیر صریح دلائل سے انکار نہ کرتے اور وَمَن لَم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللہُ فَاؤُلٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ۔ (المائدۃ) کے بجائے واضح اور ان صریح آیات سے دلیل لے کر اس کا ردّ کرتے جن میں قانون سازی کرنے والوں کو طاغوت اور ربّ کہا گیا ہے مثلاً
ایسے دلائل خوارج کو پیش کرنے چاہئے تھے جن میں کوئی ابہام نہیں تھا یہ آیت پیش کرتے :
یہ آیت بھی پیش کرسکتے تھے ۔
ان کے علاوہ بھی دلائل ہیں جو ایسے موقع پر پیش کیے جاسکتے تھے مگر یہ دلائل جس چیز پر دلالت کرتے ہیں وہ چیز سرے سے تھی ہی نہیں (یعنی کفر) اس لیے خوارج نے یہ آیات پیش ہی نہیں کیں ۔ اور اگر خوارج وَمَن لَم یَحکُم۔۔۔۔۔۔سے مراد واقعی علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کا کفر لے رہے ہوتے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما سمجھ جاتے اس لیے کہ وہ حبر الامۃ ہیں امت کے بہت بڑے عالم قرآن کے مفسر آیتوں کے شان نزول کو اچھی طرح سمجھنے والے اور آیت (وَاِن اَطَعتُمُوھُم اِنَّکُم لَمُشرِکُونَ ۔ (الانعام)) شانِ نزول کے راوی ہیں آیت کا معنی ہے ۔ اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤگے ۔ حاکم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ کچھ مشرک لوگ مسلمانوں سے اس بارے میں بحث کررہے تھے کہ جو جانور جو تم خود ذبح کرلیتے ہو اسے حلال کہتے ہو اور جسے اللہ مار دے (یعنی مرا ہوا جانور) اسے حرام کہتے ہو؟ تو اللہ تعالٰی نے آیت نازل کی اگر تم مسلمانوں نے ان مشرکوں کا کہا مانا تو تم مشرک ہوگے ۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے علاوہ جو شخص قانون بناتا ہے یا ایسے قانون کی پیروی کرتا ہے وہ مشرک اور کافر ہے اس کے برعکس ظالم حکمران یا قاضی جو ہے تو ظالم مگر اللہ کے دین کے علاوہ کوئی دین یا شریعت اور قانون نہیں اپناتا اور نہ یہ حق خود کو یا کسی اور کو دیتا ہے ایسا شخص اگر کسی قانون کے مطابق فیصلہ کرلے ظلم کے طور پر یا اپنی خواہش سے مغلوب ہوکر اس قانون کو اللہ کے قانون کا متبادل نہ سمجھتا ہو تو اس حاکم یا قاضی کو ظالم حکمران یا قاضی تو کہیں گے مگر کافر نہیں اس عمل یعنی غیر اللہ کے قانون کو اور اس پر عمل کرنے کو جائز سمجھتا ہو اگر علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا فیصلہ کفریہ ہوتا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم ان پر کفر کا فتویٰ لگانے میں ایک لمحہ بھی دیر نہ کرتے اس لیے کہ یہ لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ کوئی ایسا قانون وشریعت جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے بنانا جائز ہے یہ کفر ہی کفر ظلم ہی ظلم اور فسق ہی فسق ہے بلکہ صرف یہ دعویٰ کرنا کہ شریعت بنانے اور قانون بنانے کا اختیار مخلوق میں سے کسی کو حاصل ہے کسی حکمران کو ، سردار کو، یا بادشاہ یا قوم یا کسی کمیٹی یا اسمبلی کو تو یہ دعویٰ بھی شرک اور بہت بڑا کفر ہے اگرچہ صرف دعویٰ ہو حقیقت میں جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے اس نے شریعت و قانون کبھی نہ بنایا ہو۔ یہ دعویٰ کرنے والا بھلے اس قانون کی اتباع کرتا ہو یا نہیں صرف دعویٰ کرنے سے ہی کافر ومشرک بن جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ خوارج اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مابین جو واقعہ ہے وہ ہمارے اس موضوع سے متعلق نہیں ہے ، دونوں میں فرق ہے لہٰذا ان دونوں علیحدہ علیحدہ موضوعات کو باہم خلط نہیں کرنا چاہئے اس طرح کرنے سے طاغوت اورابلیس کی خوشنودی ہی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ ان سب تفصیلات کے بعد بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی آخر انسان تھے معصوم عن الخطاء نہیں تھے اس سے بھی غلطی ہوسکتی تھی اول تو ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر بالفرض ہو بھی تو کیا ہم ایک انسان کی بات کو اللہ کے کلام پر ترجیح دیں گے ؟ اور وہ بھی اہم ترین مسئلے یعنی توحید کے بارے میں جو تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد رہا ، توحید کفر بالطاغوت کا ہی نام ہے کلمہ توحید کا نصف ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا یہ تفصیلی جواب چھوٹے طلبہ کو بھی سمجھ میں آگیا ہوگا چہ جائیکہ علماء کہلانے والوں کی سمجھ میں نہ آئے ؟ ہمارے دین میں حجت صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واحکام ہیں۔ یہی
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تھے جب حج تمتع پر پابندی کے لئے ان کے سامنے
کسی نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا قول پیش کیا تو انہوں نے
کہا تھا کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوجائے (بطور عذاب کے) کہ میں
تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ سیدنا
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا ہے ۔ ہم ایک
بار پھر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا دامن اس الزام سے پاک ہے کہ
وہ دین کے اصولوں میں کسی قسم کی ملاوٹ یا بے پرواہی یا مخالفت کا ارتکاب کریں گے
وہ تو ترجمان القرآن ہیں مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی صحابی کا قول دین نہیں
ہے دین میں نزاع کے وقت حجت نہیں ہے خاص کر جب یہ فرض کرلیا جائے کہ صحابی کا قول
اللہ کے حکم سے معارض ہے یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے معارض ہے ۔ ہم نے
بدیہی دلائل موجودہ زمانے کے مرجئہ کو سمجھانے اور نصیحت کے لئے پیش کردئے ہیں جو
طواغیت کی حمایت میں مصروف ہیں ۔ اور مخلوق شریعت سازی میں اللہ کا شریک قرار دینے
کے لئے ان کو ربّ بنانے کے لئے بطور دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب قول
(کفر دون کفر ) پیش کرتے ہیں |
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
|