وَمَن لَم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللہُ فَاولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ
کے تحت ایک شبہ کا ازالہ

محمد شاکرالشریف حفظہ اللہ المکۃ المکرمۃ

   غیر اسلامی قوانین کے گرویدہ خود ساختہ نظاموں کے حمایت کاروں کے اسلامی قوانین سے دلچسپی نہ رکھنے والوں اور دین اسلام کے حقائق سے بے بلد بعض نام نہاد مسلمانوں نے اسلامی قوانین کے تقدس کو پامال کرنے اور ان کو بے قیمت کرنے ، اسلام کے اندر شگاف ڈالنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو تار تار کرنے کے لئے بغیر سوچے سمجھے اور تحقیق کئے بغیر انسانی وضع کے غیر اسلامی قوانین کے نفاذ کی حمایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی (درج بالا آیت کی تفسیر کے ایک رخ کے حوالے سے) ایک ناکام ، بے بنیاد اور ناقابل تسلیم دعوی باندھا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (الحکم بما انزل اللہ) کے منافی غیر اسلامی قوانین کے نفاذ کو اسلام سے خارج کردینے والا کفر قرار نہیں دیا ہے جس کو انہوں نے (کفر دون کفر مخرج عن ملۃ الاسلام) سے تعبیر کیا ہے۔ (حوالہ تفسیر ابن جریر طبری 348/347/10)

   اس باطل دعوی کے مسترد ہوئے اور مدعائے الٰہی کے منافی ہونے کو کئی اعتبار سے خوب سمجھا جاسکتا ہے ۔

(الف)   سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا یہ رخ مجمل ہے جو کہ تفصیل طلب ہے لہٰذا تفصیل کو جاننے کے لئے تخصیص العموم بالتفسیر المطلق یا تاویل المشترک سے گزارے بغیر اس پر سو فیصد عمل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس تفسیر پر بے شمار سوالات امڈ آتے ہیں وہ یہ کہ :

 d آیا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے (کفر دون کفر) عمومی سطح پرکہا ہے جس کے تحت ہر شخص اور ہر منفی پہلو آسکتا ہے ۔
  
d یا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (کفر دون کفر) خصوصی سطح پر کہا ہے جس کے تحت صرف وہی لوگ آسکتے ہیں جو اللہ کی شریعت کو کلی یا جزوی طور پر رکھی انسانی وضع کے قوانین کو فوقیت دینے یا اللہ کی شریعت کو کلی یا جزوی طور پر مسترد کرکے غیر اسلامی شریعت کو اپنانے کے مرتکب ہوئے ہیں ؟

   d   یا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (کفر دون کفر) صرف ان لوگوں کے بارے میں کہا ہے جو اللہ کی شریعت سے اپنے نزاعات کو نہیں مٹاتے بلکہ انسانی وضع کے قوانین سے رجوع کرتے ہیں ۔

   درج بالا سوالات کا کوئی بھی شافی جواب نہیں ہے کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کا رخ مجمل ہے اور مجمل ناقابل عمل اور ناقابل التفات ہے اور خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جانب سے کسی قسم کی وضاحت نہیں ہے ۔

(ب)  کیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اسلامی قوانین کے مقابلے میں غیر اسلامی قوانین موجود تھے ۔ جن کے نفاذ پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (کفر دون کفر) کہہ کر ان قوانین اور ان کے نفاذ میں شریک حکمرانوں کو (غیر خارج عن ملۃ الاسلام) کہہ کر اس عنوان میں لچک پیدا کردیا ہو؟

   اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ابتدائی دور سے لے کر ان کی وفات تک کوئی بھی ایسا نظام حکومت مرتب نہیں تھا جو شریعت اللہ کے مقابلے میں گھڑا گیا تھا جس کے اپنانے والوں کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ الفاظ بطور نشان دہی کہے ہوں؟

   ہاں نزول قرآن کے زمانے میں علماء یہود ونصاری کے (تورات وانجیل کے منافی) فیصلوں کو (الحکم بما انزل اللہ) کے منافی قرار دے کر اللہ نے یہ آیات اتاری ہیں جن سے تو صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ آسمانی تعلیمات (خود تورات میں ہوں یا انجیل میں ہوں یا قرآن وحدیث میں ہوں) ان کے بر خلاف کسی بھی ردّ عمل کو اللہ تعالیٰ نے (الحکم بما انزل اللہ) کے منافی قرار دیا ہے ۔ جس کے تحت غیر اسلامی نظریات قوانین وضوابط آتے ہیں جن کا جواز آسمانی تعلیمات سے ثابت نہ ہو اس سے بھی (کفر دون کفر) ثابت نہیں ہوتا لہٰذا دنیا میں اس وقت رائج العمل امریکن وبرٹش لاء اور جمہوری قوانین سب کے سب (الحکم بما انزل اللہ) کے خلاف ہیں ۔

   لیکن باقاعدہ طور پر ایک منظّم غیر اسلامی قوانین کا آغاز تو سقوط بغداد کے بعد تاتاریوں کے حاکم اوّل چنگیز خان نے وضع کیا ہے جو یہودیت عیسائیت جمہوریت اور اسلامیت سب کا مجموعہ تھا ان قوانین کو تاتاریوں نے اپنے دور حکومت میں اپنے عوام اور رعایا میں رائج کیا تھا۔ جن کے کافرانہ قوانین ہونے پر اجماع موجود ہے ۔

(ج)  حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اقوال کی روشنی میں غیر اسلامی قوانین (خواہ جزوی ہوں یا کلی) کے کافرانہ قوانین ہونے پر اجماع الامت ثابت کیا گیا ہے تو پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا (الحکم بما انزل اللہ) کے منافی کردار کو کفر دون کفر کہنے کا سوال کہاں رہا ؟

(الحکم بما انزل اللہ) کے منافی پہلو پر چلنے
والوں کی دو اقسام

   پہلی قسم کے لوگوں کو خالصتًا کافر اور مرتد کہا جائے گا جنہوں نے جان بوجھ کر اسلام کی حقانیت سے انکار کیا یا کتاب وسنت کے احکامات میں سے کسی بھی حکم کو قبول کرنے سے انکار کیا یا کسی بھی قرآنی آیت اور رسول کی حدیث سے منہ موڑا یا اسلام کے ممنوعات میں سے کسی بھی ممنوع عمل کو کرنا روا جانا اس قسم کے لوگوں کو منکرین ، معاندین ، متکبرین اور مستحلین کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے یہ لوگ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے خواہ مذہبًا مسلم ہوں یا غیر مسلم اور یہی لوگ ہی (ومن لم یحکم بما انزل اللہ) کی مصداق ، تفسیر اور اصل مفہوم ہے اسی مفہوم پر اہلسنت والجماعت کے جمہور علماء کا اجماع ہے ۔

   دوسری قسم کے لوگوں کو عاصی ، فاسق ، فاجر ، اور مرتکب کبائر کہا جائے گا جنہوں نے اسلام میں داخل ہونے کے بعد کتاب وسنت کی صداقت کو تسلیم کیا لیکن نفس امارہ کے تابع ہوکر احکام اسلام کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے گناہ بھی کرتے رہے جو ان کبائر کو اپنے لئے روا نہیں جانتے تھے تو ایسے لوگ تمام علماء اہلسنت کے بقول (بالاتفاق) مسلمان ہیں جو اللہ ربّ العزت کی مشیت کے تحت قابل معافی یا عذاب یافتہ ہوکر جنت کے مستحق ٹھہریں گے خواہ ایسے لوگ حکمران ہوں یا عوام ۔ اگرچہ بعض علماء کے نزدیک یہ لوگ بھی ابدی جہنمی ہیں ان کے نزدیک ان لوگوں کی توبہ بھی قابل قبول نہیں ہے یہ لوگ اپنے عندیہ کی دلیل قرآن کی اس (وَمَن لَم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللہُ فَاولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ ) آیت سے دیتے ہیں ان کے نزدیک کافر مشرک فاسق فاجر مرتکب کبائر میں کوئی فرق نہیں ہے ان لوگوں کے نزدیک ظالم جابر حکمران یا قاضی ، تمام ارباب اقتدار اور کبائر کے مرتکب (عام پبلک) میں بھی (انجام کے اعتبار سے) کوئی فرق نہیں ہے ان انتہاء پسندوں کو تاریخ اسلام میں خوارج کے نام سے جانا جاتا ہے یہ گروہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کرچکے تھے ان کا وجود اسی دور سے چلا ہے تاہم اب بھی ایسے انتہاء پسند لوگوں کا وجود ختم نہیں ہوا اسی قسم کے لوگوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور اسلام سے متنفر کرنے اور اسلام کو انتہا پسند دین قرار دینے میں کافی مدد ملی ان کا نظریہ جمہور علماء اہلسنت کے خلاف ہے اس لئے بالاتفاق علماء تحقیق اس نظریے کو مسترد کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کی بیشمار آیات اور احادیث رسول اس نظریے کے ناقابل تسلیم ہونے کو ثابت کرتی ہیں اور علماء اہلسنت کے نزدیک اس بات پر اجماع ہے کہ (کفر دون کفر) مرتکب کبائر فاسق فاجر انسانوں کے بارے میں ہی کہا گیا ہے جو ان گناہوں کے کرنے کی بنیاد پر اسلام سے خارج نہیں سمجھے جاتے کیونکہ جو بھی گناہ ان سے سرزد ہوا اس کی  بنیاد سستی، غفلت، کاہلی اور نادانی تھی نہ کہ ان گناہوں کے کرنے کی بنیاد دین سے بغاوت اسلام سے تجاوز مذہب سے محاذ آرائی یا ان گناہوں کو اپنے لئے حلال اور روا جاننا تھا۔

   امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی کتاب الایمان کے تحت (کفر دون کفر) سے عنوان قائم کرکے ثابت کیا ہے کہ خوارج کا نظریہ باطل ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اس عنوان کو قرآنی آیت (وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا الخ) سے ثابت کیا ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی خانہ جنگی کا تذکرہ کیا ہے جنگ وقتال کے الفاظ صراحتًا استعمال کرکے اس گناہ میں ملوث لوگوں کو مؤمن بھی کہا ہے جبکہ ( سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر) کے تحت اس کی نفی ہوتی ہے چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں کتاب اللہ کے حکم کی حدیث سے تخصیص نہیں کی ہے اس لئے کہ قتل ایک گناہ کبیرہ ہے جو ایک مسلمان کے لائق نہیں مگر بلوائی سطح پر یا انتقامی سطح پر دو مسلمانوں میں قتل کی نوبت آجائے جبکہ یہ دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنا اپنے لئے حلال نہ سمجھتے ہوں تو ایسا قتل مخرج عن الملۃ نہیں ہے اور (سباب  المسلم فسوق و قتالہ کفر) میں قتل نفس کو  کفر اس وقت ٹھہرایا گیاہے جب قاتل اپنے مقتول کے قتل کو اپنے لئے حلال جانتا ہو تو اس صورت میں یہ قتل واقعی کفر کا کردار ہے لہٰذا خوارج کے نظریہ کا مسترد ہونا اور ناقابل قبول ہونا واضح ہوا کیونکہ خوارج کے نزدیک ہر قسم کا قتل (خواہ عمدًا ہو خطاً ہو استحلالاً ہو بلوائی طور پر ہو یا (انفرادی عمل سے ہو) صریح کفر ہے اور مخرج عن الملۃ ہے ۔

   اور یہاں پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جو حکام اور ارباب اقتدار اکثر قوانین اسلامی نظام کے مطابق چلا رہے ہیں لیکن بعض امور مملکت میں غیر اسلامی طرز قانون سے استفادہ بھی کرتے ہوں وہ اپنی اس تقصیر ، کوتاہی اور طرز عمل کے معترف اور اس پر نادم بھی ہوں تو ایسے حکمران بھی (کفر دون کفر) کے تحت عاصی فاسق، فاجر ہیں نہ کہ خارج عن الملۃ ہیں ۔

   کیونکہ نظریہ خوارج پر سرگرم عمل اباضیہ گروہ کے بعض قائدین کا ایک معروف معتمد تابعی بھی (جو ابومجلز کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہیں) سے ہونے والے سوال و جواب یا علمی ونظریاتی مناقشے میں درج بالا عنوان (وَمَن لَم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللہُ فَاولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ الظَّالِمُونَ ، الفَاسِقُونَ) پر خوب تکرار ہونے پر ابومجلز نے اپنے دور کے بعض غیراسلامی قوانین سے استفادہ کرنے والوں کو (کفر دون کفر)  کے زمرے میں شمار کیا نہ کہ کفر مخرج عن الملۃ سے ۔  (حوالہ تفسیر ابن جریر طبری 348/347/10)

   جبکہ اباضیہ کے سرگرم قائدین کا اسی عنوان پر زور تھا کہ ایسے حکام وقضاۃ (یعنی سول،فوجی،پولیس آفیسرزاور جج) اور اربابِ اقتدار بھی ملت اسلامیہ سے خارج ہیں ۔ ابومجلز نے وضاحت کے لئے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ حکمران ملت اسلامیہ سے کس طرح خارج ہوسکتے ہیں جبکہ ان کی اکثر حکمرانی بلکہ بنیادی طور پر ان کی طرز حکومت اسلامی ہے تو صرف ان کے کسی کبائر کے ارتکاب سے ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوسکتے ۔ جس کبائر کا ارتکاب محض سستی وغفلت سے عمل میں آیا ہو نہ اس کو اسلام سے محاذ آرائی یا اس گناہ کو حلال جانتے ہوئے کیا ہو۔

   لہٰذا کوئی بھی اسلام پسند صاحب انصاف (خوارج کے انتہاء پسندانہ نظریہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ان کی تفسیر کے جزوی رُخ سے) جادہ حق سے انحراف نہ کرے ان دونوں پر سیر حاصل بحث ہوچکی ہے ۔

   بعض مسلمانوں نے سلفی نظریات کے حامیوں کو بدنام کرنے کے لئے ان کے مرتکب کبائر غیر خارج عن الملۃ (یعنی ملت اسلامیہ سے خارج ہونے) کے نظریے سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے عام لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کے لئے کہا ہے کہ سلفی لوگ گناہوں کو فروغ دینے کی خاطر نظریہ خوارج کی تائید کررہے ہیں ۔

   حالانکہ ان لوگوں نے سلفیوں اور خوارجہ کے بنیادی اختلاف کو سمجھا ہی نہیں اگر سمجھا ہوتا تو یہ الزام کبھی نہ تھوپتے سنئے ! خوارج ہر مرتکب گناہِ کبیرہ کو ملت اسلامیہ سے خارج سمجھتے ہیں جنہوں نے کبیرہ کا اتکاب سہواً کیا ہو یا استحلالاً کیا ہو یا اسلام سے بغاوت کرتے ہوئے کیا ہو جبکہ اہلسنت سلفی نظریات کے حامیوں کا کہنا یہ ہے کہ سہواً ، نسیاناً ، غفلتاً یا خطاً کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتے تاوقتیکہ اس کبیرہ کو استحلالاً (یعنی اس گناہ کو اپنے لئے جائز یا ماحول کے لئے اس غیر اسلامی قانون کو مناسب ، مفید ، فائدہ مند تصور کرتے ہیں) نہ کیا ہو۔

    لہٰذا جس نے بھی سلفیوں اور اہلسنت والجماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے وہ حقیقت میں علم سے بے بلد اجتہاد کی دولت اور نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے ہے ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ نے اسی وجہ سے مفتی اور قاضی کے لئے فتویٰ دینے اور فیصلے کرنے کے لئے کڑی شرائط مقرر کی ہیں تاکہ ان کے فتنوں اور فیصلوں کی وجہ سے معاشرے میں بے راہ روی ، ناانصافی ، بدامنی خوف وہراس بدچلنی بداخلاقی نااتفاقی ظلم وزیادتی عمل میں نہ آئے ۔

   چنانچہ ابن قیم جوزی رحمہ اللہ نے مفتی اور قاضی کے لئے فہم وفراست کے دو اعلٰی معیار کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے ۔ (اعلام الموقعین 88/87/1)

   1-   مفتی، قاضی ، اور مجسٹریٹ کو پیش آمدہ مسئلہ یا مقدمے کی اصل شرعی حقیقت اور نوعیت سے آگاہ ہونا چاہیے اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لئے تمام ضروری اورمتعلقہ وسائل یعنی (عمیق استنباط، قرائن۔ شواہد اور تمام ضروری اور متعلقہ وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے تاکہ حقیقت الحال سے مکمل آگاہ ہوکر فیصلہ صادر کرنے میں کسی قسم کی لغزش ، ناانصافی (جانبداری کی بدگمانی) پشیمانی اور غلط فیصلہ کرنے کی نوبت نہ آئے۔

  2-   مفتی، قاضی، جج اورمجسٹریٹ کو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پیش آمدہ کیس ، مقدمے یا مسئلہ کے تحت اللہ اور اس کے رسول نے کتاب وسنت میں کیسا فیصلہ یا حکم سنایا ہے ابن قیم رحمہ اللہ کے استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب مجموع الفتاویٰ 510/28 میں ان شرائط کا تذکرہ کیا ہے اور تاکیداً فرمایا ہے کہ تمام علماء اسلام ، مفتیان دین، قاضیان عدالت، اور عدلیہ کے ججوں کو ان شرائط کی پابندی کرنی چاہئے تاکہ صحیح طور پر شرعی فیصلہ صادر ہوسکے ورنہ مذہب اور دین کے خلاف کوئی تہلکہ خیز دھماکہ ہوسکتا ہے ۔

    اور کبھی بھی کوئی فیصلہ یا فتوی سابق سلفی فتاوی اور فیصلوں کی بنیاد پر نہ کرے تاوقتیکہ ان فتاوی اور فیصلوں کی اصل حقیقت ، حکمت اور اسباب سے آگاہ نہ ہوجائے جن کی بنیاد پر وہ فتاوی اور فیصلے عمل میں آئے ہوں۔

    جب مفتی عالم، اور قاضی مقررہ اصولوں اور ضوابط کے مطابق شرعی فیصلے یا فتاوی صادر کرنے کی کوشش کریں تو ایسے فتاوی اور فیصلے سلفی فتاوی اور سلفی فیصلے کہلائیں گے ورنہ نہیں حتی کہ سلف صالحین میں سے کسی سے کوئی قول یا فتویٰ یا کوئی اثر منقول ہی کیوں نہ ہو۔

   (الحکم بما انزل اللہ) کے تحت شبہات کا ازالہ کافی حد تک ہوچکا ہم مزید وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے علماء الاصول کے زریں اقوال کو پیش کررہے ہیں جنہوں نے اپنے اقوال کے تحت فرمایا ہے کہ آیت (وَمَن لَم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللہُ فَاولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ) کے تحت عموم لفظ کا اعتبار ہے نہ کہ خصوص سبب نزول کا ۔ (مقدمہ فی الصول التفسیر ضمن مجموع الفتاوی 339/338/13)

    تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آیت مذکورہ کا سبب نزول اہل کتاب کے علماء سوء ہیں (جنہوں نے شریعت الٰہیہ میں اپنی مرضی کے خود ساختہ قوانین کو دخیل بنایا تھا) البتہ اس آیت کی وعید کے تحت اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے تمام حکام قضاۃ مفتیان جج علماء اور مجسٹریٹ شامل ہیں جو اپنے اپنے دور میں اپنے معاشروں کے اندر خود ساختہ قوانین کو شریعت پر فوقیت دیتے ہیں ۔

   اسی عنوان کی تائید میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری 120/13میں فرماتے ہیں کہ کسی بھی دور میں جس نے یہود ونصاریٰ کے اس مذموم کردار کو اپنایا اور دینِ الٰہی میں خود ساختہ قوانین کو داخل کردیا اور اسے ایک باقاعدہ شرعی حکم کے طور پر نافذ العمل قرار دیا تو ایسے لوگ بھی اس وعید میں یعنی (وَمَن لَم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللہُ فَاولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ) میں شامل ہیں خواہ حکمران ہوں یا عوام ۔


   محمد قطب اپنی کتاب "کیف ندعوا الناس" میں "کفر دون کفر" کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں :

   سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول : "کفر دون کفر" (کہ یہ کفر تو ہے مگر وہ کفر نہیں جس سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے) سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کی رو سے ہمارے ان نظاموں کا حکم بدستور کفر وشرک ہی ہے یا کہیں نرمی کی گنجائش ہے!؟

   جس چیز کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ کفر دون کفر ہے (یعنی کفر تو ہے مگر وہ کفر نہیں جس سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے) وہ قانون سازی کا عمل نہیں وہ اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کوئی اور قانون چلانا نہیں ۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد بالکل کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ کوئی قاضی یا حاکم صرف کسی ایک خاص مقدمے میں شریعت کے خلاف فیصلہ صادر کردیتا ہے ، چاہے وہ جہالت سے ایسا کرے ، یا کسی تاویل کی وجہ سے ،یا کسی مفاد کی ترغیب میں آکر ، یا رشوت لے کر یا ہوائے نفس کی بنا پر تو ایسا شخص کفر کا ارتکاب تو کرتا ہے مگر اس کفر کا ارتکاب نہیں جو اسے دائرہ اسلام سے خارج کردے ۔ ایسا شخص تو سیدنا  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد ہی نہیں جو اپنے اس خلاف شریعت فیصلے کو ملک کے طول و عرض میں ایک جگہ عام اور ایک واجب الاتباع قانون کا درجہ بھی دے دے ۔

   ایک ایسا قاضی یا جج جس کے پاس ایک رنگے ہاتھوں شراب پیتے شخص کو پکڑ کر لایا گیا ہو، اس کا جرم ثابت ہوتا ہو ، منہ سے شراب کی بدبو آرہی ہو پھر بھی وہ اس پر حد نہیں لگاتا کیونکہ وہ اس کے اہل خانہ سے رشوت کھائے بیٹھا ہے ، اس وجہ سے وہ اس کیس میں کوئی باریکیاں اور نکتے نکال کر بیٹھ جاتا ہے اور یوں کوئی نہ کوئی حجت کرکے مجرم پر شریعت کا حکم لاگو کرنے سے راہِ فرار اختیار کرجاتا ہے تو وہ ایک فاسق قاضی تو ہوگا مگر وہ اس فسق کی بنا پر کافر نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ہاں البتہ جس دن وہ یہ کہنے لگے کہ شراب پینا کوئی جرم نہیں یا یہ جرم تو ہے مگر اس پر یہ کوڑوں  کی حد نہیں لگے گی بلکہ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی تو تب وہ شخص کافر ہی کہلائے گا اور اس کا کفر بھی وہ ہوگا جو اسے ملت اسلامیہ سے خارج کردے ۔ کیونکہ اس نے اس فیصلے کی رو سے ایک حکم عام اور ایک قانون صادر کیا ہے جو کہ شریعت سے براہ راست متصادم ہے ۔ ایسے شخص کے کافر ہونے پر سب کے سب فقہاء کا اتفاق ہے ۔

   جب تاتاریوں نے یاسق (توشہ چنگیزی) کو قانون کے طور پر چلایا اور (یاسق(توشہ چنگیزی) جس کے بارے میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :

   "یاسق  (توشہ چنگیزی) کچھ احکام اور قوانین کا مجموعہ ہے ۔ اس کے کچھ احکام و قوانین قرآن سے ماخوذ ہیں ، کچھ انجیل سے ، کچھ تورات سے اور کچھ ایسے ہیں جو چنگیز خان نے خود وضع کیے"۔

   سورہ مائدہ کی اس آیت :

اَفَحُکمُ الجَاھِلِیَّۃِ یَبغُونَ وَمَن اَحسَنُ مِن اللہِ حُکمًا لِّقَومٍ یُّوقِنُونَ ۔ (المائدۃ)
کیا یہ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے اور قانون دینے والا کوئی نہیں ہے ۔

   سورہ مائدہ کی اس آیت کے تحت امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :

    آیت میں اللہ تعالٰی ایسے شخص کا انکار فرماتا ہے جو اللہ کے حکم وقانون سے خروج کرے جبکہ اللہ کا حکم و قانون ہی خیر ہے اور ہر برائی کا خاتمہ کرتا ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی ایسے شخص کا انکار فرماتا ہے جو اللہ کے حکم وقانون کو چھوڑ کر ان دوسری آراء و اصلاحات کو اپناتا ہے جو انسانوں نے آپس میں اپنے لئے مقرر ٹھہرالی ہیں اور جن پر اللہ کی شریعت سے کوئی سند نہیں ۔ جیسا کہ اہل جاہلیت بھی اپنی گمراہیوں اور جہالتوں کو بنیاد بناکر اپنا قانون چلاتے تھے اور جن کا مصدر ان کی اپنی ہی اہواء و آراء ہوتی تھیں ، اور جیسا کہ یہ تاتاری اپنے شاہی قوانین وفرامین چلاتے ہیں اور جن کا ماخذ ان کے بادشاہ چنگیز خان کا وضع کیا ہوا یاسق (توشہ چنگیزی) ہے اور جو کہ مختلف قانونی احکام کا مجموعہ ہے جو مختلف شریعتوں سے لئے گئے ہیں جن میں یہودیت ، نصرانیت اور اسلام اور دوسری شریعتیں سب آتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور یوں یہ یاسق (توشہ چنگیزی) اس کی اولاد میں ایک قانون اور دستور کا درجہ پاچکا ہے اور اسے وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لاگو کرنے پر مقدم رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سو جو شخص ایسا کرتا ہے وہ کافر ہے ۔ اس سے قتال واجب ہے تاآنکہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کی جانب پھر نہ آئے اور تاآنکہ وہ ہر چھوٹے اور بڑے معاملے میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے  قانون کے مطابق فیصلے نہ کرنے لگے ۔

   اب ظاہر ہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کا بہت اچھی طرح علم تھا جس کا ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں ۔ مگر امام ابن کثیر رحمہ اللہ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کی بنا پر دیکھ لیجئے کوئی بھی اشکال نہ ہوا! کیونکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنے علم وفقہ کی بدولت ان دوباتوں کا علمی فرق جانتے ہیں ۔ ایک یہ کہ کسی ایک خاص مقدمے میں ماانزل اللہ کے برخلاف فیصلہ کردینا اور دوسرا یہ کہ ماانزل اللہ کے برخلاف ایک باقاعدہ قانون چلانا۔


 

 

 

 

 CONTACT Muwahideen

 

Muslim World Data
Processing Pakistan

eMail:muwahideen


 

Home !